Behlol Dana aur 4 Ajeeb Shartain || ‏حضرت بہلول دانا اور جنت || Behlol Dana full Movie Urdu

               






          : حضرت بہلول اور عبداللہ کی چار شرطوں کا قصہ:

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عبداللہ مبارک کے دل میں حضرت بہلول دانا سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا تو کسی نے عبداللہ کو بتایا کہ بہلول صحرا میں ملے گا تو عبد اللہ خیرا کی جانب روانہ ہوا ایک جگہ اس نے حضرت بہلول کو دیکھا کہ ننگے سر ننگے پاؤں یا ہو یا ہو پکا رہے ہیں وہ قریب گیا اور سلام کیا تو حضرت بہلول نے سلام کا جواب دیا تو عبداللہ مبارک بولا یا شیخ مجھے کچھ نصیحت کیجئے مجھے بتائیں کہ زندگی کو گناہوں سے کس طرح پاک کرو اور اپنے سرکش نفس سے کس طرح بازی لے جاؤ اور کیوں کر راہ نجات اختیار کرو تو حضرت بہلول دانا نے سادگی سے کہا کہ بھائی جو خود ت پریشان ہے اس سے کوئی دوسرا کی امید رکھ سکتا ہے میں تو دیوانہ ہوں تو جا کسی عقلمند کو تلاش کر جو تیری فرمائش پوری کر سکے تو عبداللہ نے سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا کہ بہلول اسی لئے تو یہ ناچیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ سچی بات کہنے ہمت تو دیوانے ہی رکھتے ہیں تو حضرت بلال نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہو گئے عبداللہ مبارک منت خوشامد کرنے لگا جب اس نے بہت مجبور کیا تو حضرت بہلول دانا بولے کہ عبداللہ میری چار شرطیں ہیں اگر تم قبول کر لو تو میں تمہیں راہ نجات دکھا دوں گا عبداللہ نے بے صبری سے کہا کہ میں آپ کی چار ہزار کے ماننے کو تیار ہوں کہ راہ نجات تو اس میں بھی سستی ہے تو بہلول دانا بولے سن میری پہلی شرط یہ ہے

 

پہلی شرط ؛>

                            کہ جب تو کوئی گناہ کرو یا خدا کے حکم کی نافرمانی کرے تو اس کا رزق بھی مت کھاؤ عبداللہ گھبرایا اور بولا کہ حضرت بہلول یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی خدا کا رزق نہ کھائے تو بہلول بولے عقلمند آدمی تو پھر خدا کی بندگی کا دعوی بھی نہ کروں کرو یہ کہاں کا انصاف ہے جس کا رزق کھاو اسی کی نمک حرامی کرو جس پر عبداللہ نے اعتراف کیا کہ بےشک اپ صحیح فرماتے ہیں -

 

 

 

دوسری شرط ؛>   

                               حضرت بہلول دانا نے کہا کہ دوسری شرط یہ ہے کہ جب تو کوئی گناہ کرنا چاہیے تو خدا کی زمین سے نکل جاؤ کہ یہ دنیا تو خدا کی تخلیق کی ہوئی ہے تو عبداللہ مبارک چلایا اور بولا کہ خدایا یہ شرط تو بالکل ہی ناقابلِ عمل ہے زمین کے سوا بندہ کہاں رہ سکتا ہے عبداللہ اتنا پریشان کیوں ہو رہا ہے کہ تجھ میں ذرا برابر بھی انصاف نہیں ہے تیرے خیال میں یہ صحیح ہے کہ بندہ جس کے ملک میں رہے جس کا رزق کھائے اور جس کی بندگی کا دعوی کرے اس کی نافرمانی کرے تو عبداللہ مبارک نادم ہوا اور بولا کہ آپ نے سچ فرمایا -

 

تیسری شرط ؛>

                               جب تو کوئی گناہ کرنے کا ارادہ کرے یا خدا کی نافرمانی کرنا چاہے تو کسی ایسی جگہ جا کر کر جہاں خدا تجھے نہ دیکھ سکے اور نہ ہی تیرے حال سے واقف ہوجب تجھے کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں خدا تجھے نہ دیکھ سکے تو جو چاہے وہ کر عبداللہ گھبرایا اور بولا کہ حضرت بہلول خدا  تو حاضر و ناظر ہے وہ عالم الغیب ہے وہ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے تو پھر ایسی کونسی جگہ ہے جو اس سے پوشیدہ اورجل ہے تو بہلول دانا بولے عبداللہ جب تو یہ جانتا ہے کہ وہ حاضر ناظر ہے تو پھر کیا کسی بندے کو زیب دیتا ہے کہ وہ خدا کی زمین پر رہے اس کا رزق کھائے اور اس کے سامنے ہی اس کی نافرمانی کرے اور پھر بھی اسے بندگی کا دعویٰ ہو حالانکہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ یہ خیال نہ کرو کہ اللہ اس عمل سے غافل ہے جو ظلم کرتے ہیں -

 

 

چوتھی شرط ؛>

                                      تو بہلول دانا کہنے لگے کہ میری چوتھی شرط یہ ہے کہ جس وقت ملک الموت اچانک تیرے پاس آئے تاکہ خدا کے امر کو پورا کرے اور تیری روح قبض کر کے لے جائے اس گھڑی ملک الموت سے کہنا موت ذرا ٹھہر میں اپنے عزیزوں سے رخصت ہو لو اور وہ جوش اپنے ساتھ لے لو جو آخرت میں نجات کا سبب ہو پھر تم میری روح قبض کرنا تو عبداللہ بن مبارک نے فریاد کی کہ ملک الموت کب کسی کو مہلت دیتا ہے شیخ بہلول تو یہ جانتا ہے ملک الموت کسی کو مہلت نہیں دیتا گناہوں کے بیچ میں کسی وقت بھی سامنے آکھڑا ہوتا ہے پھر ایک سانس کی مہلت نہیں ملتی جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ جس وقت موت آئے گی تو نہ گھڑی بھر کے دیر ہو گئی اور نہ جلدی تو کب تک غفلت میں رہے گا آخرت کی فکر کا لمبا سفر سامنے ہے اور عمر بہت مختصر ہے جو کام اور عمل خیر آج ہوسکتا ہے وہ آج ہی کرو      یہ سن کر عبداللہ مبارک کا سر جھکتا چلا گیا اور اس کی زبان گنگ ہوگئی حضرت بہلول دانا نے کہا کہ تم نے خود ہی مجھ سے نصیحت کرنے کی فرمائش کی تھی جو تمہیں راہ نجات دکھا دے تم نے اب سر کو جھکا لیا ہے تمہاری زبان پر تالا کیوں پڑ گیا ہے تم آج میرے سامنے لاجواب ہو گئے ہو تو جب کل روز حشر تم سے پوچھا گیا تو کیا جواب دو گے اس دنیا میں ہی اپنا حساب صاف کرو تاکہ کل کے خوف سے پناہ میں آ جاؤ  -

  

Post a Comment

0 Comments