کڑوا سچ یا میٹھا زھر

 کڑوا سچ یا میٹھا زھر


جمعرات 27 جنوری 2022

انجینیئر نذیر ملک سرگوھا



ہم پاکستانی لوگ مسلمان تو ہیں مگر اک وکھری ٹائپ کے۔


 ہم کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پڑھتے ہیں اور نیو ایئر بھی کھل کر مناتے ہیں  


بسنت پر کروڑوں روپۓ کی پتنگ بازی میں سینکڑوں راہگیروں کی گردنوں پر ڈور پھروا بیٹھتے ہیں

بسنت پر پتنگ بازی ایسی کی نوجوان مرد و زن آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور بو کاٹا کے نعرے سرچ لائٹ کی روشنیوں میں تھرکتی جوانیاں، سحر انگیز میوزک ڈی جے فل والیوم کے ساتھ۔ بس نہ پوچھ آگے کی بات


 کرسمس، نیو ائیر، ہندؤں کے تہوار ہولی دیوالی ہو یا سکھوں کے گرو نانک کا جنم دن سب ہمارے ہاں ایسے ہی یاد رکھے جاتے ہیں جیسے عید بقرہ عید۔۔۔۔۔۔


ہم سودی لیں دین بھی کر لیتے ہیں، ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ہوۓ ذخیرہ اندوزی کے حرام مال سے حج بیت اللہ بھی کرلیتے ہیں اور زندگی میں بار بار عمرہ کا احترام باندھ کر لبیک اللھمہ لبیک کا تلبیہ بھی جوش و خروش سے پکار  لیتے ہیں اور حج بیت اللہ سے واپسی پر وہی کالے کرتوت۔

    

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم ہیں کون؟


اور ہم اپنی اصل سے مرکز گریز ہو کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟


نماز روزے کے عادی مسلمان اپنے عقائد کو قرآن و سنت کی بجاۓ پیروں فقیروں اور جہلا کے غیر شرعی اعمال سے کشید کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہم فرقوں میں بٹ گۓ اور اپنی اصل سے ہٹ گئے۔


تبلیغ دین کی بجائے مسالک کی ہونے لگی مسجد و محراب بھی فرقوں میں منقسم ہو گۓ اور توحید شرک سے اتنی آلودہ ہو گئ کہ سب کچھ گڈمڈ ہو گیا اور اصل کی پہچان مفقود ہو گئ اور دعائیں اللہ سے مانگنے کی بجاۓ غیر اللہ سے مانگنے لگے۔


بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی


مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے


ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے تاکہ فلاح پاتے مگر ہم دین سے اتنے دور چلے جا رہے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔


اب تو اکثر لوگ بس یہی کہتے کہ

 

اپنا عقیدہ چھوڑو نہ اور دوسروں کا چھیڑو نہ


یاد رہے یہ جملہ اسلام کی اصل یعنی تبلیغ دین کی جڑ کاٹنے کے لئے کافی ہے۔ گو حکم خدا  وندی تو یہ ہے کہ مشرکوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ہر فرقہ اسی میں خوش ہے جو اس کے پاس ہے(القرآن) اور آج ہم اپنے فرقے کے خلاف کچھ نہیں سننا چاہتے چاہے ہم صریح غلطی پر ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ہم اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم اصل دین کی طرف نہیں پلٹ رہے اور کنوؤیں کے مینڈک کی طرح اپنے باطل عقیدے پر پختہ تر ہوتے جا رہے ہیں اور جہالت کے گڑھے میں پڑے رہتے ہیں نہ کسی کی سنتے اور مانتے ہیں اور نہ کسی اہل علم سے دریافت کرتے ہیں جبکہ حکم ربانی ہے کہ اگر نہیں معلوم تو اہل علم سے پوچھ لیا کرو (القرآن)۔

.

یہ بھی اک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر ہم پاک و ہند کی غیر مسلم قوموں سے مسلمان ہوۓ ہیں (ہندو، سکھ، بدھ مت وغیرہ) مگر صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارے اندر کا ہندو مرا نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بتوں کی پوجا تو ہم نے چھوڑ دی مگر  غیر اللہ سے امیدیں رکھنا ہم میں ابھی ہے۔ سادھو کا گیان جاتا رہا مگر پیر پرستی کی صورت میں اس باطل عقیدے کی رمق آج بھی باقی ہے اور یہ اس وقت تک نہ نکلے گی جب تک ہم اندر سے مسلمان نہ ہو جائیں گے اور اس کی تطہیر کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پکا ایمان اور علم قرآن و حدیث پر من و عن عمل کرنے سے ہو گی اور اپنی مرضی کو چھوڑ کر کتاب و سنت کے تابع ہونا پڑے گا اور سابقہ غلطیوں کی اپنے رب سے معافی مانگنا ہو گی۔ تب بات بنے گی وگرنہ جہنم ٹھکانا ہوگا 


اصولی بات یہ ہے غلامی میں حکم آقا کا ہی ماننا پڑتا ہے اپنی مرضی ختم اور اگر اپنی مرضی چلانی ہے تو یہ غلامی نہیں بلکہ من مانی ہو گی۔ جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔

      

فرمان نبوی ہے کہ حمکت مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے پا لے (حدیث)۔


دین اسلام تو تبلیغ کا حکم دیتا ہے اور اس وقت تک قتال کا حکم دیتا ہے جب تک اسلام دنیا پر غالب نہ آجاۓ۔ 

لیکن کفار ہمیں اپنے مقصد عین سے ہٹا دینا چاہتے ہیں کیوں کہ عقیدہ توحید، قاطع شرک و بدعات، تبلیغ اسلام اور قتال غیرمسلموں کی موت کا کھلا پیغام ہے۔


کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا


مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی


الدعاء

یا اللہ تعالی بس تو ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لے۔


آمین یا رب العالمین


Post a Comment

0 Comments